تلاوتِ قرآن اللہ
کا خصوصی انعام:
وحی کے سب سے پہلے کلمے ”اقرأ“ کا
مخاطب حضرتِ انسان ہے نہ کہ فرشتہ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی
حیثیت واسطہ کی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری
تعلیم و تربیت اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے، جبرئیل کا قرآن لانا اور پڑھ کر سنانا خود ان کے
اختیار میں نہیں تھا(۱) وہ حکم خداوندی کے خلاف کرہی نہیں سکتے تھے؛
جب کہ انسان کو طاعت ومعصیت دونوں کا اختیار دیاگیا ہے،
اسی وجہ سے تلاوتِ قرآن کا مر انسان کوملا کسی فرشتہ کو ایسا کوئی
حکم نہیں دیاگیا، ابن الصلاح اپنے فتاویٰ میں
لکھتے ہیں قِرَأةُ الْقُرْآنِ کُرَامَةٌ أکْرَمَ اللہُ بِھَا الْبَشَرَ
فَقَدْ وَرَدَ أنَّ الْمَلَائِکَةَ لَمْ یُعْطَوا ذٰلِکَ وَأنَّھَا
حَرِیْصَةٌ عَلٰی اسْتِمَاعِہ مِنَ الْانْسِ․
یعنی قرآن کا پڑھنا ایسی شرافت ہے جس سے اللہ تعالیٰ
نے انسان کو مشرف کیا ہے؛ چونکہ یہ چیز فرشتوں کو نہیں ملی؛
اس لیے انسان اس نعمتِ خاصہ کی وجہ سے فرشتوں کے لیے رشکِ تمنا
بنا ہوا ہے۔(۲) یہی
وجہ ہے کہ فرشتے ایسی مجالس کی تلاش میں رہتے ہیں،
جہاں قرآن پاک کی تلاوت یا مذاکرہ ہورہا ہو، بالآخر موٴمنین
کی ایسی مجلسوں کو رحمت کے فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں
اور سَماعِ قرآن کی برکت سے رحمت الٰہی اور سکینت سے وہ
بھی مستفید ہوتے ہیں۔(۳) امام بیہقی نے شعب الایمان میں یہ
حدیث نقل کی ہے اذَا قَامَ أحَدُکُمْ یُصَلِّي مِنَ اللَّیْلِ
فَلْیَسْتَکِ فَانَّ أحَدَکُمْ اِذَا قَرَأَ فِی صَلَاتِہ وَضَعَ
مَلَکٌ فَاہُ عَلٰی فِیْہِ وَلاَ یَخْرُجُہ مِنْ فِیْہِ
شَیْءٌ الاَّ دَخَلَ فَمَ الْمَلَکِ (ترجمہ) نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم میں
سے کوئی رات میں نماز (تہجد) کے لیے اٹھے تو مسواک کرلے؛ اس لیے
کہ تم میں سے کوئی جب نماز میں قرآن پڑھتا ہے تو فرشتہ پڑھنے
والے کے مُنھ پر اپنا منھ رکھ دیتا ہے اور جو چیز پڑھنے والے کے منھ
سے نکلتی ہے وہ فرشتہ کے منھ میں داخل ہوتی ہے۔ اس طرح کی
روایت کچھ اضافہ کے ساتھ حضرت علی سے بھی منقول ہے۔(۴)
قرآن اللہ کا غیرفانی
کلام:
بنی نوع انسان کی داستانیں
قصہٴ پارینہ بن سکتی ہیں، تمام درختوں کے اوراق بوسیدہ
ہوسکتے ہیں، شاخوں کے قلم ریزہ ریزہ ہوسکتے ہیں اور ہفت
اقلیم کے سمندر کی روشنائی ختم ہوسکتی ہے؛ مگر کلامِ الٰہی
کا چہرہٴ بسیط ہمیشہ تروتازہ اور نشیط رہے گا، اس کے شباب
پر کبھی کہنگی یا کہولت نہیں آسکتی؛ اس لیے
کہ وہ عجائب ونوادر کا لازوال سرچشمہ اور معانی ومعارف کا بحرِناپیدا
کرنا ہے وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہ امام شاطبی لکھتے ہیں:
وَخَیْرُ جَلِیْسِ
لَا یُمَلَّ حَدِیثُہ * وَتَرْدَادُہ یَزْدَادُ فِیْہِ تَجَمُّلاَ(۵)
سہل بن عبداللہ تُستَری فرماتے ہیں ”اگر بندہ کو قرآن مجید
کے ہر حرف کے بدلے ہزار فہم ودانش دے دی جائے، تب بھی اُن معانی
کی انتہاء کو نہیں پہنچ سکتا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی
کتاب کی ایک آیت میں ودیعت کی ہے؛ اس لیے
کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور کلام اس کی ذاتی صفت ہے، پس جس طرح ذاتِ
خداوندی کی کوئی حدونہایت نہیں، اسی طرح معانیِ
کلام کی بھی کوئی غایت نہیں ہے، انسان بس اتناہی
سمجھتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے اس پر منکشف فرمایا ہے؛ لہٰذا
اس کا کلام ”قدیم“ (یعنی غیرفانی) ہے“(۶)
قرآن پاک کی اسی ازلی
وابدی حیثیت کوکسی زمانہ میں ہواپرست عقل مندوں نے
پائمال کرنے کی کچھ ناپاک سعی کی تھی، جس سے عام اہل
اسلام کے عقائد میں وسوسہ لاحق ہوگیا تھا، دنیادار لوگوں کا ایمان
ڈگمگا چکا تھا، اللہ تعالیٰ نے اِس فتنہٴ عظیم کو جڑسے
ختم کردینے کے لیے علمائے حق میں سے ایک جماعت کا انتخاب فرمایا
جس کے سرخیل امام احمد بن حنبل
قرار پائے؛ چنانچہ امام احمد
نے اپنی پوری توانائیوں سے فتنہ کی سرکوبی فرمائی
اور کلام کے غیرفانی یعنی ”قدیم“ ہونے کو دلائل
وبراہین سے مستحکم وآشکارا کیا؛ یہاں تک کہ فتنہ پرزوال آہی
گیا اور کلامِ لازوال پورے آب و تاب کے ساتھ مخلوق کے درمیان محفوظ
رہا۔(۷)
جس کو کلام مجید، قرآن مجید
کہا جاتا ہے، وہ مصحف ہے ، یعنی کاغذ یا کسی اور چیز
پر لکھا ہوا یا چھپا ہوا قرآن۔ یہ یقینا مخلوق ہے
(کفایة المفتی ۱/۱۳۰) یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ
کلام الٰہی پر دلالت کرنے والے نقوش جو کاغذ وغیرہ پررقم ہوتے ہیں،
اسی کے مجموعہ کو مصحف کہا جاتا ہے، ان ہی نقوش ومکتوب کو ہم اپنی
زبان سے ادا کرتے ہیں، جس کو الفاظ کہتے ہیں اور اپنے کانوں سے اس کی
جو آواز سنتے ہیں اسے اصوات کہتے ہیں؛ چونکہ یہ سب انسان کی
ذات وصفات سے متعلق ہیں؛ اس لیے انسان کی طرح یہ چیزیں
بھی حادث اور فانی ہیں۔
علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ قرآن کے غیرفانی
ہونے پر بعض علماء نے ایک لطیف استدلال یہ بھی کیا
ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ”انسان“ کا ذکر اٹھارہ جگہ کیا ہے اور سب
جگہ اس کا مخلوق ہونا بیان کیا اور ”قرآن“ کا ذکر چو ّن (۵۴) جگہ فرمایا ہے؛ لیکن کسی ایک جگہ بھی
اس کے مخلوق ہونے کا تذکرہ نہیں؛ بلکہ ایک مقام پر دونوں کو یکجا
ذکر کیا تو ارشاد الٰہی ”اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ
الْقُرْآنَ خَلَقَ الْانْسَانَ“
کی تعبیر نے دونوں کو ممتاز کردیا ہے۔(۸)
فضائلِ قرآن کی
احادیث کی حیثیت:
مطلق فضائل کی روایات کو تین
حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں: (۱) وہ احادیث جو سنداً ومتناً صحیح اور حسن ہیں
(۲)
وہ روایات جو سنداً
ومتناً موضوع ہیں (۳) وہ
احادیث جو سند کے اعتبار سے اگرچہ پہلے درجہ کی نہیں ہیں؛
لیکن وہ موضوع بھی نہیں ہیں، اسے ضعیف کہتے ہیں۔
موضوع روایات
ناقابل اعتبار ہیں اور جو احادیث ضعیف کہلاتی ہیں
ان سے احکام فقہیہ کے لیے استدلال استشہاد میں تو کلام کیا
جاسکتا ہے؛ مگر جن محدثین محققین نے حدیث کے رد و قبول کے اصول
اور اس کے مراتب اور درجاتِ استدلال مقرر فرمائے ہیں، انھوں نے ہی
فضائل کے باب میں توسّع کیا ہے اور نقد کی باریکیوں
سے اِغماض کرتے ہوئے عمل بالحدیث الضعیف کو صحیح قرار دیا
ہے۔ ابوعبداللہ حاکم نیشاپوری صاحب مستدرک نے کتاب الدعاء کے
شروع میں اس کی صراحت فرمائی ہے (مستدرک ۱/۴۹۰) لہٰذا فضائل کے باب میں ضعیف احادیث پر
اعتماد اور عمل جمہور علمائے امت محدثین و فقہاء کے نزدیک درست؛ بلکہ
مستحب ہے۔ امام نووی
نے بھی اس کی صراحت فرمائی ہے(ازکار۱/۱۰) اور کیوں نہ ہوکہ شرائع کا ایک بڑا حصہ فضائل پر
مشتمل ہے، پس احادیثِ فضائل پر عدم اعتماد اور اس پر عمل نہ کرنے کی
صورت میں دین کے ایک وافر حصہ سے گویا اعراض اور اس سے دستبردار
ہونا لازم آتا ہے، جو یقینا مصالحِ شرعیہ کے خلاف اور خسارہٴ
عظیم ہے۔
مطلق قرآن مجید
کے فضائل:
علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ فضائلِ قرآن کے
سلسلہ میں دو طرح کی روایات ہیں: ایک قسم روایات
کی وہ ہے جس میں قرآن کی فضیلت یا کسی مخصوص
سورة یا آیت کی فضیلت مذکور ہے اور وہ سب روایات
قابل اعتبار ہیں۔ یہاں ان میں سے چند احادیث وآثار
بالترتیب پیش کرتے ہیں:
(۱) رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قابل رشک دوا شخاص ہیں ایک وہ جس
کو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی تلاوت عطا کی اور
وہ رات دن اس میں مشغول رہتا ہے اور اس کے احکام پر عمل کرتا ہے، دوسرا وہ
شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے مال عطا فرمایا، پس وہ رات دن
اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا رہتا ہے۔(۹)
(۲) حضرت عثمان غنی حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ تم میں
بہتر شخص وہ ہے جو قرآن پاک خود سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔(۱۰)
(۳) نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس نے کتاب اللہ کا ایک
حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی
کا اجر دس نیکی کے برابر ملتا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ
الم ایک حرف ہے؛ بلکہ الف (ا) ایک حرف ہے، لام (ل) ایک حرف ہے،
میم (م) ایک حرف ہے۔(۱۱)
(۴) حضرت عائشہ
حضور کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور وہ قرأت میں
ماہر ہے تو (قیامت کے دن) وہ سَفَرہٴ کرام (انبیائے کرام اور
ابرارلوگوں) کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے (مگر ماہر نہیں ہے) مشقت
اٹھاکر تکلف سے قرأت کرلیتاہے اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔(۱۲)
(۵) حضرت ابوامامہ باہلی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
فرماتے ہوئے سنا کہ ”قرآن پڑھاکرو؛ اس لیے کہ قرآن اپنے پڑھنے والوں کے لیے
قیامت کے دن سفارش کرے گا۔(۱۳)
(۶) حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو
مسلمان قرآن شریف پڑھتا ہے،اس کی مثال ترنج کی سی ہے کہ
اس کی خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اور مزہ بھی لذیذ۔
اور جو مومن قرآن شریف نہ پڑھے اس کی مثال کھجور کی سی ہے
کہ خوشبو بالکل نہیں؛ مگر مزہ شیریں ہوتا ہے اور جو منافق قرآن
شریف پڑھتا ہے اس کی مثال خوشبودار پھول کی سی ہے کہ
خوشبو عمدہ اور مزہ کڑوا۔ اور جو منافق قرآن شریف نہیں پڑھتا اس
کی مثال حنظل کے پھل کی سی ہے کہ مزہ کڑواہے اور خوشبو بالکل نہیں۔(۱۴)
(۷) حضرت عمر
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ اس کتاب یعنی
قرآن پاک کی وجہ سے کتنے لوگوں کا مرتبہ بلند کردیتا ہے اور کتنی
ہی لوگوں کو پست وذلیل کرتا ہے۔(۱۵)
چند مخصوص سورتوں
کے فضائل:
سورہٴ
فاتحہ: (۱) حضرت ابی
بن کعب حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو تورات میں
نہ ہی انجیل میں ام القرآن جیسی کوئی سورہ
نازل فرمائی اور وہ سبع المثانی (سورہٴ فاتحہ) ہے(۱۶)
(۲) حضرت انس
سے روایت ہے کہ الحمدللہ رب العالمین (سورہٴ فاتحہ) قرآن پاک میں
سب سے افضل ہے(۱۷)
(۳) حضرت ابن عمر
سے مرسلاً روایت ہے کہ سورہٴ فاتحہ ہر بیماری سے شفاء ہے(۱۸)
سورہٴ بقرہ
وآل عمران: (۱) حضرت نواس
بن سمعان کی روایت ہے ”قیامت کے دن قرآن اور اہلِ قرآن کو جو اس
پر عمل کرتے تھے لایا جائے گا اور (بطور قائد) ان کے آگے آگے سورہٴ
بقرہ اور آل عمران ہوگی(۱۹)
(۲) حضرت انس
سے مروی ہے کہ شیطان گھر سے نکل جاتا ہے جب وہ سنتا ہے کہ سورہٴ
بقرہ پڑھی جارہی ہے۔(۲۰)
(۳) حضرت بُریدہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے
نقل کرتے ہیں کہ سورہٴ بقرہ سیکھو؛ اس لیے کہ اس کا سیکھنا
برکت ہے اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور سیکھو بقرہ و آل عمران کہ یہ
دونوں زَہراوین ہیں۔(۲۱)
(۴) حضرت سہل بن سعد
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ہر شئے کا ایک کوہان ہے قرآن کا کوہان سورہٴ
بقرہ ہے، جس نے گھر میں دن میں پڑھا تو تین دن تک شیطان
گھر میں داخل نہیں ہوگا اور جس نے رات میں پڑھا تو تین
رات تک شیطان اس کے گھر میں داخل نہیں ہوگا۔(۲۲)
(۵) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ آدمی کا خزانہ
سورہٴ بقرہ وآل عمران ہے۔(۲۳)
سورہٴ کہف: حضرت ابوسعید خدری حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل
کرتے ہیں کہ جس شخص نے سورہٴ کہف جمعہ کے دن پڑھی اس کے لیے
ایک نور ظاہر ہوگا اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک (۲۴) بعض روایت میں ہے کہ اس کی جگہ سے مکہ تک نور
ہوگا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ دجال کے فتنہ سے
محفوظ رہے گا۔ حضرت ابوالدرداء
کی حدیث میں ہے کہ سورہٴ کہف شبِ جمعہ کو بھی پڑھ
سکتے ہیں(۲۵)
سورہٴ الم
سجدہ: مسیب بن
رافع کی مرسل روایت ہے کہ سورہٴ الم سجدہ قیامت کے دن آئے
گی، اس کے دو بازو ہوں گے، اپنے پڑھنے والے پر سایہ فگن ہوگی
اور کہے گی تم پرکوئی گرفت نہیں، تم پر کوئی گرفت نہیں۔(۲۶)
سورہٴ یٰسین: (۱) حضرت انس کی حدیث ہے کہ ہرشے کا ایک
دل ہے، قرآن کا دل یٰسین ہے جو شخص اُسے پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ
اس کے لیے دس قران کا ثواب لکھتے ہیں۔(۲۷)
(۲) حضرت ابوہریرہ
سے روایت ہے کہ جس شخص نے رات میں اللہ کی رضا کے لیے یٰسین
پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیں گے(۲۸)
(۳) حضرت انس
سے مروی ہے کہ جو شخص ہر رات یٰسین شریف پڑھنے کا
پابند ہو اور پھر مرا تو شہید مرا (یعنی شہادت کا درجہ پائے
گا)(۲۹)
(۴) حضرت معقل بن یسار کی روایت ہے کہ یٰسین
قرآن کا دل ہے جو شخص بھی اللہ کی رضا اور آخرت کی طلب کے لیے
پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مغفرت فرمادیں گے اور
اسے اپنے مُردوں پر پڑھا کرو۔(۳۰)
سورہٴ
دُخان: حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے، جس شخص نے رات میں
سورہٴ دُخان پڑھی تو صبح اس حال میں کرے گا کہ ستر ہزار فرشتے
اس کے لیے استغفار کریں گے۔(ترمذی)
مُسَبِّحات: حضرت عِرباض بن ساریہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات سونے سے
پہلے مسبحات پڑھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ان میں ایک آیت ہے
جو ہزار آیتوں سے افضل ہے۔(۳۱) (مسبحات وہ سورتیں کہلاتی ہیں جن کے شروع میں
تسبیح کا کوئی صیغہ سبّح یُسَبِّحُ وغیرہ موجود ہے)
سورہٴ
واقعہ: حضرت عبداللہ بن
مسعود حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جو شخص ہر رات سورہٴ واقعہ پڑھے گا،
اسے کبھی فاقہ نہیں ہوگا اور حضرت ابن مسعود اپنی بیٹیوں کو حکم
فرماتے وہ ہررات سورہٴ واقعہ پڑھا کرتی تھیں۔(۳۲)
سورہٴ حشر: حضرت انس
سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے ایک شخص کو وصیت کی کہ جب وہ بستر پر آئے تو
سورہٴ حشر پڑھ لیا کرے اور فرمایا کہ اگر مرگیا تو شہادت
کا درجہ پائے گا۔(۳۳)
سورہٴ ملک: حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث ہے جو شخص ہر رات
سورہٴ مُلک پڑھے گا اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ رکھیں
گے (ترمذی) ایک روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
کہ میں چاہتا ہوں کہ سورہٴ ملک ہر موٴمن کے دل میں ہو (یعنی
حفظ ہو)(۳۴)
سورہٴ
کافرون: حضرت ابن عباس حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ کیا
میں تم کو ایسا کلمہ نہ بتادوں جو تم کو شرک سے بچائے قل یٰآیّھا
الکٰفِرُون الخ سوتے
وقت پڑھ لیا کرو۔(۳۵)
سورہٴ
اخلاص: حضرت ابوہریرہ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس نے قل ہو اللہُ احدٌ دس مرتبہ (اخلاص کے ساتھ) پڑھا اللہ تعالیٰ اس کے لیے
جنت میں ایک محل تیار کرے گا۔(۳۶)
معوّذتین: حضرت عقبہ بن عامر
سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: اے عقبہ! کیا میں تم کو نہ سکھلاؤں دو پسندیدہ
سورتیں قُلْ اَعُوذُبِرَبِّ الفَلَقِ اور قُلْ اَعُوذُبِرَبِّ النَّاسِ اے عقبہ انھیں پڑھا کرو، جب سوو یا اٹھو، سائل نے
اس سے بہتر کسی اور ذریعہ سے نہ سوال کیا اور نہ پناہ مانگنے
والے نے اس سے بہتر کسی اور طریقہ سے پناہ مانگی ہے۔(۳۷)
چند آیتوں
کے فضائل:
آیَةُ الکرسی
کی فضیلت:
حضرت اُبی بن کعب
سے مروی ہے أعْظَمُ آیةٍ فی کتابِ اللہ آیةُ الکرسی قرآن پاک میں سب سے عظیم آیت، آیتُ
الکرسی ہے(۳۸) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اِن لِکُلِّ شی سَناما وسَنَامُ القرآن البقرة ہر چیز کا ایک کوہان ہوتا ہے، قرآن کا کوہان سورہٴ
بقرہ ہے اور اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی آیتوں کی
سردار ہے، وہ آیت الکرسی ہے(۳۹) حضرت علی
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مجھے آیتُ الکرسی عرش کے نیچے
خزانہ سے دی گئی ہے اور مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں
دی گئی۔(کنزالعمال۱/۲۸۲)
خواتیم بقرہ کی فضیلت: حضرت ابومسعود
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے رات میں سورہٴ بقرہ کی
آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہوں گی
(یعنی پوری رات قرآن پڑھنے سے یا کفایت کرے گی
جن و شیطان اور ہر قسم کی برائیوں سے ۔ فتح الباری ۹/۶۸) حضرت ابوقتادہ
نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے آیت الکرسی اور خواتیم بقرہ
(آمن الرسول سے آخر تک) کسی پریشانی کے وقت پڑھی تو اللہ
تعالیٰ اس کی مدد فرمائیں گے۔(۴۰)
خواتیم آل
عمران کی فضیلت:
حضرت عثمان غنی
نقل کرتے ہیں کہ جس نے رات میں آل عمران کی آخری آیتیں اِنّ فی خلق السمٰوٰت
والارضِ الخ پڑھیں تو
اس کے لیے قیام اللیل کا ثواب لکھا جائے گا۔(۴۱)
خواتیم سورہٴ
اسراء کی فضیلت:
حضرت ابوموسیٰ اشعری
سے مروی ہے کہ جس شخص نے صبح یا شام قل ادعوا اللہ او ادعوا الرحمٰن
الخ پڑھا تو اس کا قلب نہیں
مرے گا نہ اس دن میں اور نہ اس رات میں (کنزالعمال ۱/۲۸۶)
اوائل کہف کی فضیلت: حضرت ابوالدرداء
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے
نقل کرتے ہیں کہ جس نے سورہٴ کہف کی ابتدائی دس آیتیں
حفظ کرلیں (اور اسے پڑھتا رہا) تو دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا(۴۲) اور بعض روایتوں میں آخری کی دس آیتوں
کا ذکر ہے (عمل الیوم واللیلہ للنسائی ص۲۷۵)
آخر کہف کی
فضیلت: حضرت عمرو بن
العاص حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس نے رات
میں قُلْ اِنَّمَا أنَا بَشَرٌ
مِثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلیَّ اَنّمَا الٰھُکُمْ اِلٰہٌ
وَاحِدٌ پڑھی تو عدن سے
مکہ تک اس کے لیے نور ہوگا اور فرشتوں سے پُر ہوگا(۴۳)
اوائل سورہٴ
فتح کی فضیلت:
حضرت انس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تحقیق کہ مجھ پر ایسی آیات نازل ہوئی ہیں جو
مجھے پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں اِنا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً
مُبیناً پانچ آیتیں(۴۴)
آیةُ الحدید کی فضیلت: حضرت عرباض
بن ساریہ فرماتے ہیں کہ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات مُسبِّحات سونے سے پہلے پڑھتے تھے
اور فرمایا کہ ان میں ایک آیت ہے جو ہزار آیتوں سے
افضل ہے۔ ابن کثیر
فرماتے ہیں کہ وہ یہ ہے ھُوَ الاوّلُ والآخِرُ والظَّاھِرُ
وَالباطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیءٍ عَلِیْمٍ (ابوداود بحوالہ اتقان)
آخر سورہٴ
حشر کی فضیلت:
حضرت معقل بن یسار
سے مروی ہے کہ جس نے صبح کے وقت سورہٴ حشر کی آخری تین
آیتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ ستر ہزار فرشتے اس پر
مقرر فرماتے ہیں جو شام تک اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں ھو اللہ الذی لا الٰہ
الا ھو الخ(۴۵)
سورتیں چھوٹی
فضائل بڑے:
یوں تو
پورا قرآن الحمدللہ رب العٰلمین سے والناس تک ایسا کلام ہے جس کی
تلاوت پر ہر حرف کے بدلے کم از کم دس نیکیاں متعین ہیں،
پس جو شخص روزانہ ایک منزل یا تہائی یا نصف قرآن پڑھتا ہے
وہ کس قدر خوش نصیب اور اجر عظیم کا مستحق ہے؛ لیکن ظاہر ہے کہ
تہائی یا چوتھائی قرآن پاک کا پڑھنا عام مسلمانوں کے لیے
روزانہ آسان نہیں ہے یا پڑھنا ممکن ہو؛ مگر کسی وجہ سے وقت میں
گنجائش نہ ہو یا کم وقت میں اجر کثیر حاصل کرنے اور دوسروں کو
نفع پہنچانے کی آرزو ہوتو ایسی صورتوں میں کیا کریں؟
قربان جائیے نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ نے اپنی امت کے لیے یہ
مشکل بھی آسان کردی؛ تاکہ کم وقت میں زیادہ ثواب کے عدم
حصول کی حسرت نہ رہ جائے؛ چنانچہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”کیا تم سے یہ
نہیں ہوسکتا کہ تہائی حصہ قرآن پاک کا ہررات پڑھا کرو“ صحابہ نے عرض کیا یا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہائی
قرآن ہر رات پڑھنا تو بہت مشکل ہے یہ کس سے ہوسکتا ہے۔ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
قل ہو اللّٰہ احد ثواب میں تہائی حصہ قرآن کے برابر ہے ۔
(فتح الباری باب فضائل القرآن ۹/۷۲)
اس طرح کی احادیث کی
روشنی میں چند سورتوں کے فضائل ملاحظہ فرمائیں:
(۱) حضرت ابن عباس
سے روایت ہے ”سورہٴ فاتحہ دو تہائی قرآن کے برابر ہے“ (اتقان۱/۱۹۵)
(۲) حضرت انس بن مالک
سے مروی ہے ”آیت الکرسی چوتھائی قرآن ہے“ (مسند احمد
بحوالہ اتقان۱/۱۹۵)
(۳) حضرت انس بن مالک
سے مروی ہے جس نے ایک مرتبہ یٰسین شریف پڑھی
اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس قرآن پڑھنے کا اجر لکھیں گے۔
(ترمذی، بحوالہ اتقان)
(۴) حضرت انس بن مالک
سے مروی ہے جس شخص نے شبِ قدر میں سورہٴ قدر پڑھی گویا
اس نے رُبع قرآن پڑھا(۴۶)
(۵) حضرت انس بن مالک
سے مروی ہے جس نے سورہٴ زلزال پڑھی اس کو نصفِ قرآن پڑھنے کے
برابر ثواب ہوگا(۴۷)
(۶) حضرت حسن بصری سے مروی ہے: سورہٴ والعادیات
نصفِ قرآن کے برابر ہے (۴۸)
(۷) حضرت ابن عمر حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کیاتم میں سے کوئی طاقت نہیں
رکھتا کہ روزآنہ ایک ہزار آیتیں پڑھا کرے، صحابہ نے عرض کیا اس کی کون طاقت
رکھتا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کیا تم میں کسی کی طاقت نہیں
کہ روزآنہ اَلھاکُمُ التکاثر پڑھ لے(۴۹)
(۸) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے قل یآ أیُّھا الکٰفرون
چوتھائی قرآن ہے(۵۰)
(۹) حضرت انس بن مالک
سے روایت ہے اذا جاء نصر اللہ چوتھائی قرآن ہے(۵۱)
(۱۰) حضرت ابوہریرہ
کی روایت ہے قل ھو اللہ احد
چوتھائی قرآن ہے (۵۲)
(۱۱) حضرت ابوہریرہ
کی روایت ہے جس شخص نے قل ھو اللہ احد فجر کی نماز کے بعد بارہ مرتبہ پڑھی گویا اس
نے چار مرتبہ قرآن پڑھا۔(۵۳)
ان آیتوں اور سورتوں کو پورے قرآن
کا نصف یا ربع یا ثلث جو کہاگیاہے اس کا ایک مطلب ظاہر
احادیث کے مطابق یہ ہے کہ اس سے مراد اجر وثواب ہے، یعنی
ان آیتوں اور سورتوں کی تلاوت کا ثواب تہائی یا چوتھائی
قرآن کے ثواب کے برابر ہے۔(۵۴) اور جو کوئی پورے قرآن کی تلاوت کرے اس کے اجر
وثواب کی برابری تو ہونہیں سکتی۔ حکیم الامت
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: حدیث میں
ہے کہ قل ھو اللہ احد تہائی قرآن کے برابر ہے، اس سے بعض لوگ یہ سمجھتے
ہیں کہ تین دفعہ قل
ھو اللہ پڑھ لینے سے پورے
قرآن کا ثواب مل جاتا ہے۔ حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب محدث دہلوی فرماتے تھے کہ اس حدیث سے یہ
لازم نہیں آتا کہ تین مرتبہ قل ہو اللّٰہ پڑھنے سے کامل قرآن کا
ثواب مل جاتا ہے؛ بلکہ تین ثلث قرآن کا ثواب ہوگا، جیسے کوئی دس
پارے کو تین مرتبہ پڑھے۔ (مجالس حکیم الامت ص۱۸۹)
ازالہٴ رسم: بعض علاقوں میں تراویح میں ختم کے موقع پر
حُفاظِ کرام سورہٴ اخلاص کو تین مرتبہ پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں،
یہ گویا ایک رسم ہے اور بعض مرتبہ حافظ صاحب کے ایسا نہ
کرنے پر کچھ لوگ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں، یہ
علامت ہے کہ وہ اسے لازم سمجھ رہے ہیں؛ حالانکہ ایک ہی رکعت میں
سورة کو مکرر پڑھنا اگرچہ نفل نماز ہو بشرطے کہ باجماعت ادا کی جاتی
ہو، جیسے تراویح خلافِ اولیٰ ہے؛ اس لیے قل ھو اللہ احد کے تکرار سے اگر رسماً نہ بھی ہو تب بھی بچنا چاہیے
اور رسماً ہوتب تو مکروہ ہے ہی، اسے ترک کرنا چاہیے۔ (امداد
الفتاویٰ۱/۴۹۱)
حواشی:
(۱) علم الکلام لمولانا
ادریس الکاندھلوی۔ (۲) اتقان ۱/۱۳۶، الحبائک فی اخبار الملائک۔
(۳) مسلم شریف۔ (۴) شعب الایمان ۱/۳۸۱۔
(۵) حرز الامانی
للشاطبی۔ (۶) البرہان للزرکشی ۱/۲۹۔
(۷) دیکھئے
”فتنہٴ خلقِ قرآن“ تاریخ دعوت وعزیمت ۱/۹۴۔ (۸) الاتقان ۲/۱۶۶۔
(۹) بخاری ومسلم بحوالہ
التبیان للنووی۔ (۱۰) بخاری ومسلم، التبیان۔
(۱۱) ترمذی۔ (۱۲) بخاری ومسلم۔
(۱۳) مسلم شریف۔ (۱۴) بخاری ومسلم۔
(۱۵) مسلم بحوالہ التبیان۔ (۱۶) ترمذی بحوالہ اتقان۔
(۱۷) شعب الایمان
للبیہقی۔ (۱۸) کنزالعمال۱/۲۷۸، بیہقی فی الشعب۔
(۱۹) بحوالہ اتقان۔ (۲۰) اخرجہ ابوعبید۔
(۲۱) مسند احمد۔ (۲۲) بحوالہ اتقان۔
(۲۳) کنزالعمال۔ (۲۴) اخرجہ الحاکم فی المستدرک۔
(۲۵) اتقان ۱/۱۹۵۔ (۲۶) اتقان ۲/۱۹۶ عن ابی عبید۔
(۲۷) ترمذی بحوالہ
اتقان۔ (۲۸) طبرانی بحوالہ اتقان۔
(۲۹) ایضاً۔ (۳۰) ابوداود بحوالہ اتقان۔
(۳۱) ابوداود بحوالہ
اتقان۔ (۳۲) بیہقی بحوالہ فضائل قرآن۔
(۳۳) اتقان۔ (۳۴) اتقان۔
(۳۵) اتقان عن ابی
یعلی۔ (۳۶) اتقان ۲/۱۹۸۔
(۳۷) کنزالعمال ۱/۲۹۳۔ (۳۸) مسلم بحوالہ اتقان۔
(۳۹) مستدرک حاکم۔ (۴۰) اذکار للنووی۔
(۴۱) بیہقی بحوالہ
اتقان۔ (۴۲) مسلم، کنزالعمال ۱/۲۸۷۔
(۴۳) کنزالعمال ۱/۲۸۸۔ (۴۴) کنزالعمال ۱/۲۹۰۔
(۴۵) اتقان ۲/۱۹۷۔ (۴۶) کنزالعمال ۱/۲۹۶۔
(۴۷) ترمذی بحوالہ اتقان۔ (۴۹) اخرجہ ابوعبید مرسلاً۔
(۴۹) مستدرک بحوالہ
اتقان۔ (۵۰) ترمذی بحوالہ اتقان۔
(۵۱) ترمذی بحوالہ
اتقان۔ (۵۲) مسلم بحوالہ اتقان۔
(۵۳) بیہقی بحوالہ
اتقان۔ (۵۴) اتقان ۲/۲۰۴۔
***
---------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ،
جلد: 96 ، صفر 1434 ہجری مطابق دسمبر 2012ء